اک آہ جگر سوز دبی ہے تن میں
بھڑکے تو جہاں سارے کو شعلہ ہی بنا دے
اک چیخ ابھر آئی ہے گر لب پہ ہمارے
ڈر ہے تِرے پہلو میں قیامت نہ اٹھا دے
جلتی ہوئی حسرت کا نظارہ ہے مرا دل
توحید کے قرآن کا پارہ ہے مِرا دل
اترے ہیں مِری فکر میں یوں بزم کے شہدا
ٹپکے گا لہو غیرتِ ملت کا غزل سے
دامن نہ سلا پاؤ گے تم اپنے جنوں کا
گزرو جو مِری طرح مکافاتِ عمل سے
اے دھرتئ محکوم کے محکوم سالارو
مانا کہ مِرے دیس کے حاکم بھی تمہی ہو
اینکر بھی صحافی بھی راقم بھی تمہی ہو
در اصل مِرے دیس کے مجرم بھی تمہی ہو
مشتاق سبقت
No comments:
Post a Comment