Wednesday, 26 March 2025

وسعت دامان دل کو غم تمہارا مل گیا

وسعت دامان دل کو غم تمہارا مل گیا

زندگی کو زندگی بھر کا سہارا مل گیا

ہر دل درد آشنا میں دل ہمارا مل گیا

پارہ پارہ ہو چکا تھا پارا پارا مل گیا

ہم کہ میخانے کے وارث تھے ہیں اب تک تشنہ لب

چند کم ظرفوں کو صہبا کا اجارا مل گیا

جس نے خالی جام پٹکا اس مجاہد کو سلام

مے کدے میں آج پیاسوں کو اشارا مل گیا

نا خدا یہ دونوں ساحل ایک ہی دریا کے ہیں

یہ کنارہ مل گیا یا وہ کنارا مل گیا

ہم نے اپنے قافلے میں اس کو شامل کر لیا

جو تھکا ہارا ملا جو غم کا مارا مل گیا

پھر کوئی عیسیٰ فراز دار کی زینت بنا

پھر کسی تاریک شب کو اک ستارا مل گیا


سالک لکھنوی

No comments:

Post a Comment