زمین و آسماں بدلے ہوئے ہیں
وہ جب سے مہرباں بدلے ہوئے ہیں
یقیں، وہم و گُماں بدلے ہوئے ہیں
یہاں سب این و آں بدلے ہوئے ہیں
ہوائے تُند جب سے چل پڑی ہے
پرندے آشیاں بدلے ہوئے ہیں
کچھ اتنی تیز ہے موسم کی حِدت
مسافر سائباں بدلے ہوئے ہیں
کوئی پہچان تک باقی نہیں ہے
قدم کے سب نشاں بدلے ہوئے ہیں
مسیحائی کے پردے میں یہاں سب
مسیحائے زماں بدلے ہوئے ہیں
بدل کر رہ گئے ہیں لفظ و معنی
یہاں سُود و زیاں بدلے ہوئے ہیں
وہی غارت گرئ انجمن ہے
کہاں اہلِ جہاں بدلے ہوئے ہیں
جو ہیں صدیق سچائی کے خُوگر
اصول ان کی کہاں بدلے ہوئے ہیں
محمد صدیق فتحپوری
No comments:
Post a Comment