کوئی ہنگامۂ ہستی کا پرستار بھی ہے
ورنہ کشتی بھی ہے ساحل بھی منجدھار بھی ہے
ہو گئیں میری تباہی پہ وہ آنکھیں نمناک
کون جانے کہ یہی جیت مِری ہار بھی ہے
باغباں تُو بھی اسے چشمِ حقارت سے نہ دیکھ
زینتِ صحنِ چمن گُل ہی نہیں خار بھی ہے
صرف مشعل ہی نہیں ہاتھ میں تیشہ بھی رکھو
راہ میں صرف اندھیرا نہیں دیوار بھی ہے
بڑھ کے خود جام اٹھا لے نہ کہیں اے ساقی
رند مےخانے میں مجبور بھی مختار بھی ہے
آج کے دور میں اے دوست! مسیحائی کا
سب کو دعویٰ ہے مگر کوئی سرِ دار بھی ہے
ساحرہ! شکوۂ بے مہرئ ساقی کیسا؟
جام ہی جام ہیں گر جرأتِ اظہار بھی ہے
ساحرہ بیگم
بیگم ساحرہ قزلباش
No comments:
Post a Comment