Thursday, 27 March 2025

کیسے کیسے خواب سہانے چھوڑ آئے

 کیسے کیسے خواب سہانے چھوڑ آئے

سب چہرے جانے پہچانے چھوڑ آئے

بارش بن کر جو برسے تھے آنگن میں

ہم ساون کے وہ نذرانے چھوڑ آئے

چھوٹے سے مخدوش گھروندے کی خاطر

شیش محل جیسے کاشانے چھوڑ آئے

جن کے سائے میں رہ کر پروان چڑھے

ہم ایسے اشجار پرانے چھوڑ آئے

ہم تیری انجان محبت کی خاطر

رشتوں کے انمول خزانے چھوڑ آئے

شام جدائی جن کی آنکھیں بھر آئیں

اُن آنکھوں میں کیا کیا جانے چھوڑ آئے

ہم تو وزیر اِک جامِ شکستہ کی خاطر

اچھے خاصے سب میخانے چھوڑ آئے


وزیر حسن

No comments:

Post a Comment