کیسے کیسے خواب سہانے چھوڑ آئے
سب چہرے جانے پہچانے چھوڑ آئے
بارش بن کر جو برسے تھے آنگن میں
ہم ساون کے وہ نذرانے چھوڑ آئے
چھوٹے سے مخدوش گھروندے کی خاطر
شیش محل جیسے کاشانے چھوڑ آئے
جن کے سائے میں رہ کر پروان چڑھے
ہم ایسے اشجار پرانے چھوڑ آئے
ہم تیری انجان محبت کی خاطر
رشتوں کے انمول خزانے چھوڑ آئے
شام جدائی جن کی آنکھیں بھر آئیں
اُن آنکھوں میں کیا کیا جانے چھوڑ آئے
ہم تو وزیر اِک جامِ شکستہ کی خاطر
اچھے خاصے سب میخانے چھوڑ آئے
وزیر حسن
No comments:
Post a Comment