Monday, 24 March 2025

ٹھہر گیا مرے اشکوں کا قافلہ کب کا

 ٹھہر گیا مِرے اشکوں کا قافلہ کب کا

میں ہو چکا ہوں تِرے غم سے آشنا کب کا

اب اپنے چہرے پہ وہ تازگی نہ رونق ہے

اُتر چکا ہے ہر اک رنگِ خوش نما کب کا

بھٹکتا رہتا ہوں اب خواب کے جزیرے میں

گزر چکا ہے ان آنکھوں سے رت جگا کب کا

تمہاری یاد کی انگڑائیاں مچلتی ہیں

چلے بھی آؤ کہ ساون بھی آ چکا کب کا

اب ان کا عکس اُبھرتا نہیں ہے آنکھوں میں

کہ چُور ہو گیا قُربت کا آئینہ کب کا

زمانہ ہو چکا آنکھوں میں خاک اُڑتے ہوئے

روانہ ہو چکا اشکوں کا قافلہ کب کا

مِری خموشی کسی طرح ٹوٹنے کی نہیں

لبوں میں جذب ہوا حرفِ مدعا کب کا

تمام بکھرا ہوا ہے دبیز سناٹا

گزر چکا ہے صداؤں کا قافلہ کب کا

نہ جانے کب سے یہ بے برگ و بار ہے جاناں

ہمارا باغِ تمنّا اُجڑ گیا کب کا

بہت سکون ہے نوری زمیں کی پستی میں

بلندیوں کا نشہ تو اُتر چکا کب کا


مشتاق احمد نوری

No comments:

Post a Comment