Friday, 21 March 2025

تو کیا سرہانے نیا کوئی قہقہہ اگا ہے

 تو کیا سرہانے نیا کوئی قہقہہ اگا ہے

جو دکھ اچانک ہی پائنتی سے لگا کھڑا ہے

زمین پایوں سے کھاٹ کے چڑھ رہی ہے ایسے

کہ جیسے سارا فلک مجھی پر جھکا ہوا ہے

عصا کو دیمک نگل رہی ہے میں جان بیٹھا

کمر سے پہلے ہی حوصلہ ٹوٹنے لگا ہے

ہر ایک آواز ذہن میں کھولتی ہے کھڑکی

جو گیت وادی میں بہہ ریا ہے وہ دکھ ریا ہے

یہ کیسی کھائی ہے جس میں گر کر میں اُڑ رہا ہوں

زمیں سے پہلے ہواؤں کو میں نے چھو لیا ہے

یہ ہوش! لیکن حواس قائم نہیں ہوئے تھے

مگر یہ پھر بھی خیال آنے سے آگیا ہے

انیم!! یہ کائنات کی آخری گھڑی ہے

میں موت ہوں اور مجھے زمانے نے چکھ لیا ہے


ابو طالب انیم 

No comments:

Post a Comment