تو کیا سرہانے نیا کوئی قہقہہ اگا ہے
جو دکھ اچانک ہی پائنتی سے لگا کھڑا ہے
زمین پایوں سے کھاٹ کے چڑھ رہی ہے ایسے
کہ جیسے سارا فلک مجھی پر جھکا ہوا ہے
عصا کو دیمک نگل رہی ہے میں جان بیٹھا
کمر سے پہلے ہی حوصلہ ٹوٹنے لگا ہے
ہر ایک آواز ذہن میں کھولتی ہے کھڑکی
جو گیت وادی میں بہہ ریا ہے وہ دکھ ریا ہے
یہ کیسی کھائی ہے جس میں گر کر میں اُڑ رہا ہوں
زمیں سے پہلے ہواؤں کو میں نے چھو لیا ہے
یہ ہوش! لیکن حواس قائم نہیں ہوئے تھے
مگر یہ پھر بھی خیال آنے سے آگیا ہے
انیم!! یہ کائنات کی آخری گھڑی ہے
میں موت ہوں اور مجھے زمانے نے چکھ لیا ہے
ابو طالب انیم
No comments:
Post a Comment