یہ نہ سمجھو ضبطِ غم سے دم مِرا گھٹتا نہیں
گھر سے باہر کیسے نکلوں، کوئی دروازہ نہیں
تپ کے غم کی آگ میں جب تک کہ دل نکھرا نہیں
اس نے اپنے درد کے قابل مجھے سمجھا نہیں
شہرِِ دل میں آج کل ہے اس قدر گہرا سکوت
جیسے اس بستی میں کوئی آدمی رہتا نہیں
تم کو پانا چاند کو چھونے کی کوشش ہی سہی
یہ سمجھ لو میں نے آئینہ کبھی دیکھا نہیں
ساتھ چھوڑا ہے کسی نے ایسے نازک موڑ پر
دل جہاں ترکِ محبت پر بھی آمادہ نہیں
ہم اٹھائیں ہاتھ اے شاداں! دعا کو کس لیے
وہ سلامت ہیں تو دامن میں ہمارے کیا نہیں
شاداں بدایونی
عبدالمجید صدیقی
No comments:
Post a Comment