شکوہ کی بات ہے نہ شکایت کی بات ہے
آپس کی گفتگو ہے محبت کی بات ہے
ایثار چاہتی ہے محبت بہ نام ترک
اب امتحان ظرف ہے ہمت کی بات ہے
بتخانے میں بھی نور خدا دیکھتا ہوں میں
جی ہاں یہ میرے حسنِ عقیدت کی بات ہے
جو تجھ کو نا پسند ہے، اوروں کو ہے پسند
یہ اپنے اپنے ذوق و طبیعت کی بات ہے
سنیے تو شیخ جی کی ذرا لن ترانیاں
حوروں کا ذکر خیر ہے جنت کی بات ہے
شیخ حرم کا ذکر نہیں ہے مرے ندیم
پیر مغاں کے کشف و کرامت کی بات ہے
تو اور بد گمان ہو کہنے سے غیر کی
شکوہ کا ہے مقام، شکایت کی بات ہے
مجھ سے قریب ہو کے بہت دور ہو گئے
یہ بھی مِرا نصیب ہے قسمت کی بات ہے
میں بے ادب نہیں ہوں رہیں آپ مطمئن
خلوت میں ہی کہوں گا جو خلوت کی بات ہے
اغیار کو بھی اتنا تو آخر ہے اعتراف
طالب کی بات بات صداقت کی بات ہے
طالب دہلوی
No comments:
Post a Comment