Friday, 28 February 2025

شکوہ کی بات ہے نہ شکایت کی بات ہے

 شکوہ کی بات ہے نہ شکایت کی بات ہے

آپس کی گفتگو ہے محبت کی بات ہے

ایثار چاہتی ہے محبت بہ نام ترک

اب امتحان ظرف ہے ہمت کی بات ہے

بتخانے میں بھی نور خدا دیکھتا ہوں میں

جی ہاں یہ میرے حسنِ عقیدت کی بات ہے

جو تجھ کو نا پسند ہے، اوروں کو ہے پسند

یہ اپنے اپنے ذوق و طبیعت کی بات ہے

سنیے تو شیخ جی کی ذرا لن ترانیاں

حوروں کا ذکر خیر ہے جنت کی بات ہے

شیخ حرم کا ذکر نہیں ہے مرے ندیم

پیر مغاں کے کشف و کرامت کی بات ہے

تو اور بد گمان ہو کہنے سے غیر کی

شکوہ کا ہے مقام، شکایت کی بات ہے

مجھ سے قریب ہو کے بہت دور ہو گئے

یہ بھی مِرا نصیب ہے قسمت کی بات ہے

میں بے ادب نہیں ہوں رہیں آپ مطمئن

خلوت میں ہی کہوں گا جو خلوت کی بات ہے

اغیار کو بھی اتنا تو آخر ہے اعتراف

طالب کی بات بات صداقت کی بات ہے


طالب دہلوی

No comments:

Post a Comment