دشتِ غُربت میں ہو یا منزلِ جاناں کے قریب
حادثے رہتے ہیں ہر دور میں انساں کے قریب
دُور ہو کر بھی وہ رہتا ہے رگِ جاں کے قریب
ہم گُنہ گار تو ہیں رحمتِ یزداں کے قریب
ایک مُدت ہوئی اُجڑے ہوئے دُنیائے سکون
آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں دلِ ویراں کے قریب
ناخدا! تیری ضرورت ہے نہ اب ساحل کی
آ گیا خود ہی سفینہ مِرا طُوفاں کے قریب
غیرتِ عشق کو منظور نہیں ہے، ورنہ
دستِ وحشت ہے ابھی چاکِ گریباں کے قریب
ڈھونڈئیے میری اسیری کے لیے اور مقام
رُک گئیں آ کے بہاریں درِ زِنداں کے قریب
جانے کیا گُزرے پھر اربابِ چمن پر عظمت
وحشتِ دل مجھے لے آئی بیاباں کے قریب
عظمت بھوپالی
No comments:
Post a Comment