سلگتی ریت میں تلوے لہو لہو کرنا
پھر اس کے بعد گلابوں کی آرزو کرنا
اسے خبر نہیں میں کٹ چکا ہوں اندر سے
وہ چاہتا ہے مِرا پیرہن رفو کرنا
یہ مشغلہ نہیں مرہم ہے دل کے زخموں کا
تمام رات ستاروں سے گفتگو کرنا
یہ رسم اب بھی ہے زندہ مِرے قبیلے میں
خود اپنے بہتے ہوئے خون سے وضو کرنا
برس کے رہ گئیں شمشیریں میرے شانوں پر
میں چاہتا ہی تھا آئینہ رو بہ رو کرنا
عبدالسلام اظہر
No comments:
Post a Comment