خود جن کی نظر ہے رسن و دار کے آگے
وہ سر نہ جھکیں گے کبھی تلوار کے آگے
مل جائے مِری عمر انہیں قافلے والو
جانا ہے جنہیں منزلِ دشوار کے آگے
ایک اور بھی دیوارِ تمدن ہے شکستہ
تہذیب کی گرتی ہوئی دیوار کے آگے
ہم ایسے چراغوں کے اجالوں میں پلے ہیں
جو گُل نہ ہوئے صر صرِ پندار کے آگے
بے دام کی جنسِ غمِ دل بیچ رہا ہوں
بازار میں ایک ایک خریدار کے آگے
گُم ہے جرسِ قافلۂ وقت کی آواز
دیوانوں کی زنجیر کی جھنکار کے آگے
اک پیاسا رہے، دوسرا سیراب ہو ساقی
ذلت ہے یہ مے خوار کی میخوار کے آگے
بے دیکھے نہ کھنچ پائے گی تصویر تمہاری
یہ بات نہ کہنا کسی فنکار کے آگے
کچھ ایسے بھی انساں ہیں کمال اپنی نظر میں
خم جن کی جبیں ہے درِ اغیار کے آگے
کمال لکھنوی
سید غلام عباس
No comments:
Post a Comment