خوشبو کا جسم، یاد کا پیکر نہیں ملا
دل جس سے ہو شگفتہ وہ منظر نہیں ملا
آخر بجھاتا کیسے وہ اپنی لہو کی پیاس
تلوار مل گئی تو کوئی سر نہیں ملا
ناگاہ دوستوں کی طرف اٹھ گئی نگاہ
جب دشمنوں کے ہاتھ میں خنجر نہیں ملا
پھرتا ہوں کب سے نقد دل و جاں لیے ہوئے
میں وہ سخی ہوں جس کو گداگر نہیں ملا
طاہر! مٹے گا کیسے یہ بے چہرگی کا غم
وہ سنگ ہوں جسے کوئی آذر نہیں ملا
طاہر تلہری
No comments:
Post a Comment