کہوں کس طرح کیا غضب بولتے ہیں
برستے ہیں شعلے وہ جب بولتے ہیں
اگر وقت آیا تو سب چپ رہیں گے
ابھی لاکھ بڑھ چڑھ کے سب بولتے ہیں
وہی ان سے ہم بول اٹھیں تو کیا ہو
کہ جو ہم سے وہ روز و شب بولتے ہیں
بہادر تو ہرگز نہیں ہیں وہ، لیکن
تِری بزدلی کے سبب بولتے ہیں
نہ تھی کم سے کم آپ سے یہ توقع
ہزار اس طرح ہم سے سب بولتے ہیں
کیے جائیے ظلم ہم پر کہ ہم تو
نہ جب بولتے تھے، نہ اب بولتے ہیں
سمجھ لیں جو انور زباں حادثوں کی
بہت حادثے روز و شب بولتے ہیں
انور شمیم
No comments:
Post a Comment