Thursday, 27 February 2025

دوست میرے ہی مجھے دشمن جاں لگتے ہیں

 دوست میرے ہی مجھے دشمنِ جاں لگتے ہیں

لفظ و لہجے بھی مجھے تیر و کماں لگتے ہیں

صرف تجھ تک نہیں موقوف تیرا حسن و جمال

کم تجھے دیکھنے والے بھی کہاں لگتے ہیں

جو ترے قول مری راحتِ جاں تھے پہلے

اب وہ سب قول مجھے آہ و فغاں لگتے ہیں

دست گل سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ بہار

پر ترے ہاتھ یہاں گل کو خزاں لگتے ہیں

جو میسر ہیں تمہیں اُن کو گنوا مت دینا

لوگ لوگوں کو تو بہتر ہی نہاں لگتے ہیں

کچھ بھی کہتے ہوئے محتاط رہا کر اکبر

لفظ کے جسم نہیں دل پہ نشاں لگتے ہیں


اکبر جلال

No comments:

Post a Comment