Sunday, 16 February 2025

پلکوں پہ سج رہے ہیں جو موتی نہ رولیے

 پلکوں پہ سج رہے ہیں جو موتی نہ رولیے 

جوہر ہیں غم کے غم کے ترازو میں تولیے

شامِ غمِ فراق کے پہلو میں بیٹھ کر

آئی کسی کی یاد تو چپکے سے رو لیے

موندی گئیں جو آنکھیں تو آئے وہ دیکھنے

آ کر بھی کہہ نہ پائے کہ آنکھیں تو کھولیے

دیکھا جو قدر غم کی نہیں ہے جہان میں

لے کر وہ بیج دل میں محبت سے بو لیے

جاگے ہوئے تھے ہم جو تمنا کے باب میں

صبح مراد پا کے اچانک ہی سو لیے

لکھا ہوا تھا کل بھی وفا کے مزار پر

آئے ہو در پہ دل کے تو ہولے سے کھولیے

دیکھا جو دل کو چپ تو وفاؤں نے یہ کہا

اتنی طویل شب ہے ارے کچھ تو بولیے


اویس الحسن

No comments:

Post a Comment