Monday, 17 February 2025

نہیں نہیں ہے مجھے اعتبار شیشے پر

 نہیں نہیں ہے مجھے اعتبار شیشے پر

پڑا ہی رہنے دو گرد و غُبار شیشے پر

تُو جا رہا ہے تو یہ آئینہ بھی لیتا جا

نظر پڑے گی مِری بار بار شیشے پر

ہُوا ہے چُور تو بکھری پڑی ہے خاکِ بدن

رکھا تھا کس نے یہ اپنا مزار شیشے پر

تُو مُسکرا کے اگر دیکھ لے اسے اک بار

تو لوٹ آئے گی پھر سے بہار شیشے پر

پڑے ہیں ورطۂ حیرت میں شیشہ گر سارے

تُو نقش ایسا بھی کوئی اُبھار شیشے پر

دکھائی اس میں دیا تھا جو عکسِ یار کبھی

سو آ رہا ہے مجھے آج پیار شیشے پر

سو کٹ گیا نا تِرا ہاتھ بھی تو جانِ غزل

کہا تھا کس نے کہ غُصہ اُتار شیشے پر

دکھائی دے گا یہ شہزاد ایک دن سب کو

بنا رہا ہوں دلِ داغدار شیشے پر


شہزاد عجمی

No comments:

Post a Comment