Wednesday, 19 February 2025

عبارت جو اداسی نے لکھی ہے

 عبارت جو اداسی نے لکھی ہے

بدن اس کا غزل سا ریشمی ہے

کسی کی پاس آتی آہٹوں سے

اداسی اور گہری ہو چلی ہے

اچھل پڑتی ہیں لہریں چاند تک جب

سمندر کی اداسی ٹوٹتی ہے

اداسی کے پرندو تم کہاں ہو؟

مِری تنہائی تم کو ڈھونڈھتی ہے

مِرے گھر کی گھنی تاریکیوں میں

اداسی بلب سی جلتی رہی ہے

اداسی اوڑھے وہ بوڑھی حویلی

نہ جانے کس کا رستہ دیکھتی ہے

اداسی صبح کا معصوم جھرنا

اداسی شام کی بہتی ندی ہے


سندیپ ٹھاکر

No comments:

Post a Comment