عبارت جو اداسی نے لکھی ہے
بدن اس کا غزل سا ریشمی ہے
کسی کی پاس آتی آہٹوں سے
اداسی اور گہری ہو چلی ہے
اچھل پڑتی ہیں لہریں چاند تک جب
سمندر کی اداسی ٹوٹتی ہے
اداسی کے پرندو تم کہاں ہو؟
مِری تنہائی تم کو ڈھونڈھتی ہے
مِرے گھر کی گھنی تاریکیوں میں
اداسی بلب سی جلتی رہی ہے
اداسی اوڑھے وہ بوڑھی حویلی
نہ جانے کس کا رستہ دیکھتی ہے
اداسی صبح کا معصوم جھرنا
اداسی شام کی بہتی ندی ہے
سندیپ ٹھاکر
No comments:
Post a Comment