سطحِ پسِ درون نئے نقش لائیے
مجھ کو مِرے مزاج سے بہتر بنائیے
حکمِ غنی سے آئے تو ہم آ چکے بہت
لفظوں پہ التماس کی خُوشبو لگائیے
اپنی انا پہ ظُلم نہ کیجے مسافرین
کہہ کیوں رہے ہیں آپ کہ جاتے ہیں جائیے
غم پنچھیو! میں آپ کی عمدہ خوراک ہوں
اے دشمنو! پلیز مجھے نوچ کھائیے
بحرِ اُمیدِ قُرب میں خود وصل ہو چکا
کتنے ہی اب فراق کے قصے سنائیے
پتھرا چکا ہے آپ کے آنے کا راستہ
پلکیں بچھائیے کہ اب آنکھیں بچھائیے
شارق قمر
No comments:
Post a Comment