عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا
ہے سرخیوں میں برابر قصور دریا کا
کسی پلک میں نمی تک نہیں رہی باقی
چلا گیا کہاں چہروں سے نور دریا کا
ہر ایک موج کی ہے نبض میرے ہاتھوں میں
میرے شعور میں ضم ہے شعور دریا کا
ہر ایک حرف سے اک تشنگی سی رستی ہے
احاطہ کرتی ہیں کیا یہ سطور دریا کا
بجا نہیں ہے کہ اس نے ڈبو دیا مجھ کو
بدن پہ داغ لگا ہے ضرور دریا کا
مِری انا ہی بنے گی برسنے والی گھٹا
یہ خالی کوزے سے ہو گا ظہور دریا کا
رشید امکان
No comments:
Post a Comment