Tuesday, 11 February 2025

عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا

 عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا

ہے سرخیوں میں برابر قصور دریا کا

کسی پلک میں نمی تک نہیں رہی باقی

چلا گیا کہاں چہروں سے نور دریا کا

ہر ایک موج کی ہے نبض میرے ہاتھوں میں

میرے شعور میں ضم ہے شعور دریا کا

ہر ایک حرف سے اک تشنگی سی رستی ہے

احاطہ کرتی ہیں کیا یہ سطور دریا کا

بجا نہیں ہے کہ اس نے ڈبو دیا مجھ کو

بدن پہ داغ لگا ہے ضرور دریا کا

مِری انا ہی بنے گی برسنے والی گھٹا

یہ خالی کوزے سے ہو گا ظہور دریا کا


رشید امکان

No comments:

Post a Comment