منزل کے نام
کیسے کھینچوں تِری تصویر تو گُم ہے اب تک
تجھ کو اے جان جہاں میں نے تو دیکھا بھی نہیں
جب کبھی ابرِ شبِ مہ میں اُڑا جاتا ہے
آبشاروں سے صدا آتی ہے چھن چھن کے کہیں
یا کبھی شام کی تاریکی میں تنہائی میں
جب کبھی جلوہ جھلکتا ہے تِری یادوں کا
میں سجاتا ہوں خیالوں میں حسیں خواب کوئی
سامنے آتی ہے دو پل کے لیے تو اے دوست
اور اے پردہ نشیں! تیرا جو چلمن ہے حسیں
میں بڑھاتا ہوں قدم اس کو ہٹانے کے لیے
ناگہاں دُور سے آواز کوئی آتی ہے
کانپ جاتا ہے، دھڑکتا ہے میرا شیشۂ دل
اور پھر دُھندلی فضاؤں میں تو کھو جاتی ہے
دیکھتا ہوں جو میں مُڑ کر کہ پسِ پشت ہے کون
یاس کے بحرِ سیہِ پوش پہ رقصاں رقصاں
زہر آلود تبسم کی کٹاریں لے کر
کوئی لہراتا ہوا سایہ نظر آتا ہے
پیغام آفاقی
No comments:
Post a Comment