ہے حرم کس کا کس کے بت خانے
اس کو سمجھے ہیں کچھ تو دیوانے
زندگی کا مزا وہ کیا جانے
غم دئیے ہوں نہ جس کو دنیا نے
چشم مخمور ہیں وہ پیمانے
جن پہ قرباں ہزار مےخانے
ہوش آئے نہ تجھ کو دیوانے
پی محبت کے ایسے پیمانے
اس کو دیر و حرم سے کیا مطلب
نقش پا کو جو ان کے پہچانے
پھر تقاضا ہے وحشت دل کا
کر گریباں کو چاک دیوانے
رہ گئے خود الجھ کے آخر کار
راز ہستی چلے تھے سلجھانے
سر اٹھے پھر نہ صبح محشر تک
سر جھکا اس طرح سے فرزانے
درد الفت سے جو نہیں واقف
مجھ کو آئے ہیں وہ ہی سمجھانے
اس کے جلوے ہیں ذرے ذرے میں
دیکھ دیر و حرم کے دیوانے
ہم بھی آئے ہیں میکدے میں شفیع
اپنے غمگین دل کو بہلانے
شفیع اللہ بہرائچی
No comments:
Post a Comment