Saturday, 15 February 2025

شاخ گل پر آشیانہ چاہیے

 شاخ گل پر آشیانہ چاہیے

تھک چکی ہوں اب ٹھکانہ چاہیے

کاٹتی ہے اب یہ تنہائی مجھے

اک نیا پھر دوستانہ چاہیے

کون کب کس بھیس میں دے گا فریب

یہ پرکھنے کو زمانہ چاہیے

تُو نہیں گر تِرا غم ہی سہی

کچھ تو جینے کا بہانہ چاہیے

بات اس دنیا کی روبی چھوڑ دے

نِت نیا اس کو فسانہ چاہیے


روبینہ ممتاز روبی

No comments:

Post a Comment