شاخ گل پر آشیانہ چاہیے
تھک چکی ہوں اب ٹھکانہ چاہیے
کاٹتی ہے اب یہ تنہائی مجھے
اک نیا پھر دوستانہ چاہیے
کون کب کس بھیس میں دے گا فریب
یہ پرکھنے کو زمانہ چاہیے
تُو نہیں گر تِرا غم ہی سہی
کچھ تو جینے کا بہانہ چاہیے
بات اس دنیا کی روبی چھوڑ دے
نِت نیا اس کو فسانہ چاہیے
روبینہ ممتاز روبی
No comments:
Post a Comment