Sunday, 23 February 2025

کوئی منتر تو بتا ایسا فسوں ہو جائے

 کوئی منتر تو بتا، ایسا فسوں ہو جائے

میرے قدموں میں وہ محبوب نگوں ہو جائے

ایک ہی پھونک سے ہو جائے وہ دیوانہ مِرا

اک مِرے قُرب کا غافل کو جنوں ہو جائے

اس کو بھی میری طرح چین نہ آئے پل بھر

ایسا تڑپے کہ مِرے دل کو سکوں ہو جائے

دل کی دہلیز پہ غم اس کا ہے لپٹا کب سے

ہے کوئی ورد کہ تھوڑا سا بروں ہو جائے

میں کہوں اور وہ چپ چاپ مجھے سنتا رہے

کتنا اچھا ہو کسی روز جو یوں ہو جائے

ایسا لاچار ہو وہ بس نہ چلے اس کا کوئی

زندگی بھر کے لیے صیدِ زبوں ہو جائے

کتنے ہی خواب ادھورے ہیں مِری آنکھوں میں

سارے ممکن ہیں اگر، کُن فیکوں ہو جائے


شگفتہ نعیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment