یہ بازارِ محبت ہے یہاں نفرت نہیں ملتی
جہاں خورشید ہوتا ہے وہاں ظلمت نہیں ملتی
ہجوم مردماں میں اجنبی بھی ہیں شناسا بھی
کوئی بستی کہ جس سے دل کو ہو رغبت نہیں ملتی
دلِ پُر درد بھی اک خاص عطا ہوتی ہے مالک کی
کہ اس دنیا میں ہر سینے کو یہ دولت نہیں ملتی
یہاں ہر چشمِ تر کے آنسوؤں میں فرق ہوتا ہے
لہو رونے کی ہر اک آنکھ کو نعمت نہیں ملتی
تڑپ جاتے ہیں ہم بھی درد و غم کا ماجرا سن کر
تسلی جا کے دینے کی ہمیں فرصت نہیں ملتی
ہزاروں میں کوئی ہوتا ہے بختاور زمانے میں
بنے مٹی سے سونا سب کی یہ قسمت نہیں ملتی
پرِ پرواز کی قوت قفس کو توڑ دیتی ہے
اسیری ہے مقدر میں تو یہ طاقت نہیں ملتی
جے پی سعید
No comments:
Post a Comment