حالات کے خداؤ! وہ ملعون ہم ہی ہیں
حمدون ہم کو کہتے ہیں حمدون ہم ہی ہیں
گھبرا کے تشنگی سے جو اپنے کو پی گیا
خود گیر و خود شکار وہ مجنون ہم ہی ہیں
جس سے ملی ہے بانجھ دماغوں کو زندگی
اے ناقدِ حیات! وہ مضمون ہم ہی ہیں
ایذا پسند طبع پراگندہ کے لیے
وہ جس نے زندگی کا کیا خون ہم ہی ہیں
ہم سے ہی تیرگی کا گریباں ہے تار تار
جو سر پہ چڑھ کے بولے وہ افسون ہم ہی ہیں
پیتا رہا نچوڑ کے سنگ و شرار جو
وہ صیدِ تشنگی، وہی محزون ہم ہی ہیں
خودکردگی کے داغ مٹانے کے واسطے
کیا کچھ کیا نہ جس نے وہ حمدون ہم ہی ہیں
حمدون عثمانی
No comments:
Post a Comment