راہ تکتے ہیں کس کی گھڑی در گھڑی
بیتی جاتی ہے جیسے صدی در صدی
درد ہے دل میں جو بہہ نہ جائے کہیں
ہم بہاتے نہیں اشک اپنے کبھی
روزگار اب نجومی تو اپنا بدل
کیا ستارے باتائیں گے قسمت مِری
خون نا حق بہانے چلے ہو مگر
اس کی قیمت چکانی پڑے گی بڑی
داستاں خوں سے الفت لکھی جائے گی
خاک و خوں سے ہے لت پت یہ دنیا مِری
الفت عالمی
No comments:
Post a Comment