سچ بات بتاتے تھے خریدار سے پہلے
ایمان کے تاجر نہ تھے بازار سے پہلے
وہ وقت بھی کیا وقت تھا جب لوگ گھروں میں
قرآن پڑھا کرتے تھے اخبار سے پہلے
اس دورِ ترقی کا نتیجہ ہے کہ اب لوگ
کپڑوں پہ نظر رکھتے ہیں کردار سے پہلے
چاہت کے پرندے کبھی کرتے تھے بسیرا
اس صحن میں اک پیڑ تھا دیوار سے پہلے
لوگوں نے سمجھ رکھا ہے سامانِ تجارت
ایثار کی تشہیر ہے ایثار سے پہلے
آپس میں محبت تھی بھروسہ تھا ادب تھا
گھر خُلد کی مانند تھا تکرار سے پہلے
مجبور کیا تُو نے ہمیں، ورنہ ہمارے
ہوتے تھے قلم ہاتھوں میں تلوار سے پہلے
لگتی ہے کہاں دیر پلٹ جانے میں بازی
تُو جیت کا اعلان نہ کر ہار سے پہلے
معلوم نہ تھا لوگ بدل جائیں گے ایسے
اس پار مِرے ساتھ تھے اس پار سے پہلے
بے موت ہی مر جاتے ہیں وہ جنگ میں اشہر
سر اپنا بچاتے ہیں جو دستار سے پہلے
نوشاد اشہر اعظمی
No comments:
Post a Comment