فصل گل بھی آئی ہے اور پون بھی سنکی ہے
پھر بھی ان فضاؤں میں کیفیت جلن کی ہے
کیا پتہ کہ یہ کس کے پیار کا جنازہ ہے؟
لوگ یوں تو کہتے ہیں؛ پالکی دُلہن کی ہے
اف یہ کیسا صحرا ہے، ہائے کس کی تُربت ہے
آپ یہ کلی تنہا جانے کس چمن کی ہے
یہ جو نوعِ انساں کی باہمی لڑائی ہے
ہو نہ ہو یہ سب سازش شیخ و برہمن کی
مجھ کو من کا سودا ہے، لوبھ تجھ کو دھن کی ہے
تجھ کو پیٹ کی دُھن ہے، مجھ کو فکر فن کی ہے
رضا اشک
No comments:
Post a Comment