بھروسہ پھولوں کا کانٹوں کا اعتبار نہیں
تعینات کے خاکے ہیں یہ بہار نہیں
میں کیسے آپ کے وعدے کا اعتبار کروں
حضور جب مجھے خود اپنا اعتبار نہیں
مِرے شعور محبت کی جس سے ذلت ہو
خدا کے فضل سے ایسا مِرا شعار نہیں
وہ بت کدہ ہو کہ کعبہ ہو یا کہ مے خانہ
کسی جگہ بھی محبت سے مجھ کو عار نہیں
اٹھانی پڑتی ہے ذِلت قدم قدم پہ اسے
جہاں میں جس کا صداقت اگر شعار نہیں
کسی کی ساقی کے قدموں پہ ہے جبین نیاز
کسی کو ساقی پہ خود اپنے اعتبار نہیں
تُو اپنی آنکھوں سے ساقی پلا کے بیخود کر
پیوں میں جام سے ایسا تو بادہ خوار نہیں
گناہگاروں پہ ہے جب کہ رحمتوں کا نزول
کہوں میں کیسے پھر اکمل گناہ گار نہیں
اکمل آلدوری
No comments:
Post a Comment