ہر اک قدم پہ عشق میں رسوائیاں ملیں
برگشتہ مجھ ہی سے مِری پرچھائیاں ملیں
پھرتی رہی سکون کی خاطر میں در بدر
جس سمت بھی گئی، مجھے تنہائیاں ملیں
دل میں تو ہم نے جھانک کے دیکھا نہیں کبھی
آنکھوں میں اُس کی جھیل سی گہرائیاں ملیں
جگنو کہیں، ستارے کہیں، پھُول ہیں کہیں
بکھری ہوئی چہار سُو رعنائیاں ملیں
تیز آندھیاں تھیں شہر میں، نکلے جو گھر سے ہم
جھونکے ملے ہوا کے، نہ پُروائیاں ملیں
کیا کیا فریب دیتے رہے ہیں تصوّرات
تنہائی میں بھی، انجمن آرائیاں ملیں
وہ جاتے جاتے لوٹ کے جو آ گیا صبا
اس کو مِرے خلوص میں سچائیاں ملیں
پروین صبا
No comments:
Post a Comment