روشنی ہو گی یہ اُمید جگائے رکھیے
ایک چنگاری تو دل میں بھی بنائے رکھیے
تجھ سے چھُوٹا تو کسی اور کا مہماں ہو گا
اس لیے درد کو سینہ میں دبائے رکھیے
آپ کی شکل بھی پہچان سکے آئینہ
ایسی صُورت تو بہرحال بنائے رکھیے
شرط ساحل کی یہ ہوتی ہی کسی طُوفاں میں
ٹھور جب تک نہ ملے خود کو بہائے رکھیے
آج کے دور میں جینے کی کلا ہے پیارے
آپ جینے کے کئی ڈھنگ بنائے رکھیے
پیوش اوستھی
No comments:
Post a Comment