دیے جلیں گے بجھیں گے ہوا کے آگے بھی
قدم تو رک نہیں سکتے فنا کے آگے بھی
خودی کا سجدہ نہ پہنچا درِ الٰہی تک
اڑا ہوا تھا کوئی سرِ انا کے آگے بھی
فقط زمین کی خبریں نہیں ہیں اپنے پاس
نگاہ رکھتے ہیں تحت الثریٰ کے آگے بھی
صدی کا کرب تو لمحے سمیٹ سکتے ہیں
پہنچ کے دیکھ سماعت صدا کے آگے بھی
فقیر لوگ متانت مزاج ہوتے ہیں
نہ خالی ہاتھ گئے ہم غنا کے آگے بھی
اثر سوال کی زد پر نہیں ہوں تنہا میں
یہ مسئلہ تو رکھا ہے ہوا کے آگے بھی
اسحٰق اثر
No comments:
Post a Comment