Friday, 14 February 2025

ہر جگہ نظر آیا صاحب نظر تنہا

 ہر جگہ نظر آیا صاحب نظر تنہا 

قلب میں صدف کے بھی دیکھا ہے گہر تنہا 

بجھ سکے گی کتنوں کی پیاس خون سے میرے 

بے شمار تیغیں ہیں اور میرا سر تنہا 

فیض کچھ تِرا بھی تھا بخشش جنوں بھی تھی 

اک ہجوم تھا پیچھے ہم چلے جدھر تنہا 

مہر و مہ کھلائے بے انتہا سے رشتہ ہے 

کیوں سمجھتا ہے اپنے آپ کو بشر تنہا 

سیر چاند تاروں کی ساتھیوں مبارک ہو 

رہ گیا قفس میں اب میں شکستہ پر تنہا 

ایک اپنا عالم خود ہے بنا لیا ہم نے 

ساتھ میں رہی دنیا ہم رہے مگر تنہا 

تھی صلیب کاندھوں پر جا رہے تھے مقتل کو 

ساتھ تھے بہت اپنے سب رہے مگر تنہا 

منزلیں جدا سب کی رہ گزر الگ سب کے 

رہ گیا ہے دنیا میں اپنی ہر بشر تنہا 

کس کو فکر تھی میری نرغۂ حوادث میں 

مضطرب دکھائی دی تیری اک نظر تنہا 


وجاہت علی سندیلوی

No comments:

Post a Comment