ہر جگہ نظر آیا صاحب نظر تنہا
قلب میں صدف کے بھی دیکھا ہے گہر تنہا
بجھ سکے گی کتنوں کی پیاس خون سے میرے
بے شمار تیغیں ہیں اور میرا سر تنہا
فیض کچھ تِرا بھی تھا بخشش جنوں بھی تھی
اک ہجوم تھا پیچھے ہم چلے جدھر تنہا
مہر و مہ کھلائے بے انتہا سے رشتہ ہے
کیوں سمجھتا ہے اپنے آپ کو بشر تنہا
سیر چاند تاروں کی ساتھیوں مبارک ہو
رہ گیا قفس میں اب میں شکستہ پر تنہا
ایک اپنا عالم خود ہے بنا لیا ہم نے
ساتھ میں رہی دنیا ہم رہے مگر تنہا
تھی صلیب کاندھوں پر جا رہے تھے مقتل کو
ساتھ تھے بہت اپنے سب رہے مگر تنہا
منزلیں جدا سب کی رہ گزر الگ سب کے
رہ گیا ہے دنیا میں اپنی ہر بشر تنہا
کس کو فکر تھی میری نرغۂ حوادث میں
مضطرب دکھائی دی تیری اک نظر تنہا
وجاہت علی سندیلوی
No comments:
Post a Comment