Friday, 14 February 2025

کم نہ تھا اس گلی کے بھلانے کا غم

 کم نہ تھا اس گلی کے بھلانے کا غم

اس پہ بھاری رہا یاد آنے کا غم

عارضی تھی زمانے کی اک اک خوشی

دائمی تھا مگر اس کے جانے کا غم

ایک امید لاغر سی بے روح سی

آس کی ڈور کے ٹوٹ جانے کا غم

روز بس ایک ہی غم سے بوجھل ہے دل

شام ڈھلنے کا غم رات چھانے کا غم

ایک عرصہ ہوا پھر بھی تازہ رہا

آج بھی اس کے اس دن نہ آنے کا غم

زیرِ لب کوئی سہمی ہوئی التجا

زہر تھا اس پہ یوں مسکرانے کا غم

دے کے دل لے گیا عمر بھر کا سکوں

چل دیا دے کے سارے زمانے کا غم

اب وہ کالج کہاں اور وہ لڑکے کہاں

حسبِ امید پیپر نہ آنے کا غم


سہیل آزاد

No comments:

Post a Comment