کم نہ تھا اس گلی کے بھلانے کا غم
اس پہ بھاری رہا یاد آنے کا غم
عارضی تھی زمانے کی اک اک خوشی
دائمی تھا مگر اس کے جانے کا غم
ایک امید لاغر سی بے روح سی
آس کی ڈور کے ٹوٹ جانے کا غم
روز بس ایک ہی غم سے بوجھل ہے دل
شام ڈھلنے کا غم رات چھانے کا غم
ایک عرصہ ہوا پھر بھی تازہ رہا
آج بھی اس کے اس دن نہ آنے کا غم
زیرِ لب کوئی سہمی ہوئی التجا
زہر تھا اس پہ یوں مسکرانے کا غم
دے کے دل لے گیا عمر بھر کا سکوں
چل دیا دے کے سارے زمانے کا غم
اب وہ کالج کہاں اور وہ لڑکے کہاں
حسبِ امید پیپر نہ آنے کا غم
سہیل آزاد
No comments:
Post a Comment