یوں چلی ہے ہوا وطن میں اداس
سانس چلتے ہیں اب بدن میں اداس
ننگے پاؤں رواں دواں ہے جنوں
آزمائش کی اس اگن میں اداس
سازشی موسموں کی جیت ہوئی
غنچہ و گل ہوئے چمن میں اداس
میں تو ہوں بے قرار اس کے لیے
یہ زمانہ ہے کس لگن میں اداس
لب سے جکڑی ہوئی زباں اپنی
لیے پھرتا ہوں میں دہن میں اداس
ایک مجذوب کی نظر میں ہوں
جسم رہتا ہے پیرہن میں اداس
اس قدر ہوں اداس میں احسان
جیسے کوئی اکیلے پن میں اداس
ریاض احمد احسان
No comments:
Post a Comment