آتا اگر بغل میں بوتل دبائے واعظ
مستی میں چوم لیتے ہم بڑھ کے پائے واعظ
بندے ہیں سب اسی کی امیدوار رحمت
رندوں کا بھی وہی ہے جو ہے خدائے واعظ
آیا ہے پی کے شاید لکنت زبان میں ہے
چلنے میں بھی نہیں ہیں قابو میں پائے واعظ
نار سقر سے آیا ہے رندوں کو ڈرانے
سنتا ہے کون اس کی دوزخ میں جائے واعظ
ہم کوئے یار ہی میں جنت سے بڑھ کے خوش ہیں
یعنی رہے مبارک جنت برائے واعظ
اوروں ہی کو دکھائے یہ سبز باغ اپنا
سچا جو ہے تو جنت ہم کو دکھائے واعظ
پیرِ مغاں کی سنتے ہیں اے شہیر ہم سب
مے خانہ میں یہی ہے ناصح بجائے واعظ
شہیر مچھلی شہری
No comments:
Post a Comment