Saturday, 22 February 2025

آتا اگر بغل میں بوتل دبائے واعظ

 آتا اگر بغل میں بوتل دبائے واعظ

مستی میں چوم لیتے ہم بڑھ کے پائے واعظ

بندے ہیں سب اسی کی امیدوار رحمت

رندوں کا بھی وہی ہے جو ہے خدائے واعظ

آیا ہے پی کے شاید لکنت زبان میں ہے

چلنے میں بھی نہیں ہیں قابو میں پائے واعظ

نار سقر سے آیا ہے رندوں کو ڈرانے

سنتا ہے کون اس کی دوزخ میں جائے واعظ

ہم کوئے یار ہی میں جنت سے بڑھ کے خوش ہیں

یعنی رہے مبارک جنت برائے واعظ

اوروں ہی کو دکھائے یہ سبز باغ اپنا

سچا جو ہے تو جنت ہم کو دکھائے واعظ

پیرِ مغاں کی سنتے ہیں اے شہیر ہم سب

مے خانہ میں یہی ہے ناصح بجائے واعظ


شہیر مچھلی شہری

No comments:

Post a Comment