Tuesday, 11 February 2025

قاصد دل نہ سہی دشمن جاں بھیجتا ہے

 قاصد دل نہ سہی دشمن جاں بھیجتا ہے

عشق کے ضمن میں وہ کچھ تو یہاں بھیجتا ہے

بر سر بزم مہک تک سے جو آتا نہیں پاس

اپنی پوشش بھی وہ گل بعد ازاں بھیجتا ہے

کس طرح صلح کا امکان برآمد ہو بھلا

 اس کو سر نذر کریں تو وہ سناں بھیجتا ہے

روٹھ کر بھیج بھی دیتا ہے ہمیں خود ہی سے دور

پھر وہاں خود چلا آتا ہے جہاں بھیجتا ہے

اس کا غم کیوں نہ اٹھاویں بسر و چشم حبیب

بار ور ہیں تو ہمیں بارِ گراں بھیجتا ہے


عثمان حبیب

No comments:

Post a Comment