قاصد دل نہ سہی دشمن جاں بھیجتا ہے
عشق کے ضمن میں وہ کچھ تو یہاں بھیجتا ہے
بر سر بزم مہک تک سے جو آتا نہیں پاس
اپنی پوشش بھی وہ گل بعد ازاں بھیجتا ہے
کس طرح صلح کا امکان برآمد ہو بھلا
اس کو سر نذر کریں تو وہ سناں بھیجتا ہے
روٹھ کر بھیج بھی دیتا ہے ہمیں خود ہی سے دور
پھر وہاں خود چلا آتا ہے جہاں بھیجتا ہے
اس کا غم کیوں نہ اٹھاویں بسر و چشم حبیب
بار ور ہیں تو ہمیں بارِ گراں بھیجتا ہے
عثمان حبیب
No comments:
Post a Comment