زندگانی خراب کر ڈالی
تھی حقیقت سراب کر ڈالی
اس کی آنکھوں نے وہ سوال کیے
ہر زباں لا جواب کر ڈالی
طاقِ نسیاں کی نذر کر دے گا
پیش کس کو کتاب کر ڈالی
آدھی ساقی کی منتوں میں کٹی
آدھی نذرِ شراب کر ڈالی
ان کے رخسار و لب نے شرمندہ
آج شرحِ گلاب کر ڈالی
رد مِری عرضِ دید درباں نے
زیرِ حکمِ جناب کر ڈالی
صحبتِ بد نے خُو تو خُو تیری
عاقبت تک خراب کر ڈالی
ناگہاں سانحاتِ دل نے صدف
ذہنی حالت خراب کر ڈالی
عبدالرزاق صدف
No comments:
Post a Comment