Sunday, 9 February 2025

زندگانی خراب کر ڈالی

 زندگانی خراب کر ڈالی

تھی حقیقت سراب کر ڈالی

اس کی آنکھوں نے وہ سوال کیے

ہر زباں لا جواب کر ڈالی

طاقِ نسیاں کی نذر کر دے گا

پیش کس کو کتاب کر ڈالی

آدھی ساقی کی منتوں میں کٹی

آدھی نذرِ شراب کر ڈالی

ان کے رخسار و لب نے شرمندہ

آج شرحِ گلاب کر ڈالی

رد مِری عرضِ دید درباں نے

زیرِ حکمِ جناب کر ڈالی

صحبتِ بد نے خُو تو خُو تیری

عاقبت تک خراب کر ڈالی

ناگہاں سانحاتِ دل نے صدف

ذہنی حالت خراب کر ڈالی


عبدالرزاق صدف

No comments:

Post a Comment