Friday, 28 February 2025

الفت کی اگر روداد سنو تو میرا فسانہ کافی ہے

 الفت کی اگر روداد سنو تو میرا فسانہ کافی ہے

ہاں ذکر جفائے دوست نہیں بیداد زمانہ کافی ہے

دنیا کو بھلا ہم کیا دیں گے خود دست نگر ہیں ہم ان کے

کچھ ان پہ تصدق کرنا ہو تو غم کا خزانہ کافی ہے

اس دور جنوں میں اپنا پتہ ہم اس کے سوا کیا سمجھائیں

اک نقش قدم سجدوں کے نشاں بس اتنا ٹھکانہ کافی ہے

پہنچا کہ نہیں اس تک کوئی اس کی تو کوئی تحقیق نہیں

دنیا کو بھلا ہم کیا دیں گے خود دست نگر ہیں ہم ان کے

کچھ ان پہ تصدق کرنا ہو تو غم کا خزانہ کافی ہے

بس ہم تو محبت کرتے ہیں ہم حمد و ثنا کو کیا سمجھیں

سنتے ہیں رجھانے کو ان کے الفت کا ترانہ کافی ہے

بیگانہ ہوا ہر شخص یہاں ہم جس کو شفا اپنا سمجھے

اب اس کا دامن تھام لیا بس وہ ہی بیگانہ باقی ہے


شفا دہلوی

پریم لال

No comments:

Post a Comment