الفت کی اگر روداد سنو تو میرا فسانہ کافی ہے
ہاں ذکر جفائے دوست نہیں بیداد زمانہ کافی ہے
دنیا کو بھلا ہم کیا دیں گے خود دست نگر ہیں ہم ان کے
کچھ ان پہ تصدق کرنا ہو تو غم کا خزانہ کافی ہے
اس دور جنوں میں اپنا پتہ ہم اس کے سوا کیا سمجھائیں
اک نقش قدم سجدوں کے نشاں بس اتنا ٹھکانہ کافی ہے
پہنچا کہ نہیں اس تک کوئی اس کی تو کوئی تحقیق نہیں
دنیا کو بھلا ہم کیا دیں گے خود دست نگر ہیں ہم ان کے
کچھ ان پہ تصدق کرنا ہو تو غم کا خزانہ کافی ہے
بس ہم تو محبت کرتے ہیں ہم حمد و ثنا کو کیا سمجھیں
سنتے ہیں رجھانے کو ان کے الفت کا ترانہ کافی ہے
بیگانہ ہوا ہر شخص یہاں ہم جس کو شفا اپنا سمجھے
اب اس کا دامن تھام لیا بس وہ ہی بیگانہ باقی ہے
شفا دہلوی
پریم لال
No comments:
Post a Comment