پھول کو رنگ ستارے کو ضیا سجتی ہے
میرے دشمن تجھے نفرت کی قبا سجتی ہے
درد تھم جاتا ہے کچھ دیر کو تسکیں پا کر
آنچ دیتے ہوئے زخموں پہ انا سجتی ہے
شاخ کیسی بھی ہو پھولوں سے حسیں لگتی ہے
روپ کیسا بھی ہو ہونٹوں پہ دعا سجتی ہے
پیڑ اپنے ہوں ثمر ور تو مزا دیتے ہیں
ہاتھ آ جائیں جو ہاتھوں میں حنا سجتی ہے
چھاؤں رستے میں گھنی ہو تو بھلی لگتی ہے
چھت نہ رِستی ہو تو آنگن میں گھٹا سجتی ہے
خواب نگری کے سبھی رستے ہوئے ہیں روشن
پیار کے نام پہ اک ماہ لقا سجتی ہے
ایک شہزادی کی قربت سے یہ سیکھا دل نے
نین تیکھے ہوں تو ایک ایک ادا سجتی ہے
ظفر خان نیازی
No comments:
Post a Comment