Monday, 17 February 2025

میرے دشمن تجھے نفرت کی قبا سجتی ہے

 پھول کو رنگ ستارے کو ضیا سجتی ہے

میرے دشمن تجھے نفرت کی قبا سجتی ہے

درد تھم جاتا ہے کچھ دیر کو تسکیں پا کر

آنچ دیتے ہوئے زخموں پہ انا سجتی ہے

شاخ کیسی بھی ہو پھولوں سے حسیں لگتی ہے

روپ کیسا بھی ہو ہونٹوں پہ دعا سجتی ہے

پیڑ اپنے ہوں ثمر ور تو مزا دیتے ہیں

ہاتھ آ جائیں جو ہاتھوں میں حنا سجتی ہے

چھاؤں رستے میں گھنی ہو تو بھلی لگتی ہے

چھت نہ رِستی ہو تو آنگن میں گھٹا سجتی ہے

خواب نگری کے سبھی رستے ہوئے ہیں روشن

پیار کے نام پہ اک ماہ لقا سجتی ہے

ایک شہزادی کی قربت سے یہ سیکھا دل نے

نین تیکھے ہوں تو ایک ایک ادا سجتی ہے


ظفر خان نیازی

No comments:

Post a Comment