رکھتا ہے اپنے ساتھ گناہوں کا بار دل
اجلے سے میرے سینے میں ہے داغدار دل
تقویٰ سے گر بھرا ہو تو پھر نیکیوں کی سمت
اس طرح دوڑتا ہے کہ ہو شہسوار دل
ہیں آج سب کے سینوں میں پتھر رکھے ہوئے
برسائے آسمان سے پروردگار دل
کب تک تو اس کی یاد کو رکھے گا اوڑھ کر
پھٹنے لگی ہے اب تو قبا یہ اتار دل
کیسی منافقانہ روش ہے کہ جسم کو
دیتا ہے پاک خون یہی پر غبارِ دل
کانٹوں سے غم کے اس کو چھڑانے کے واسطے
کھینچا جو میں نے اور ہوا تار تار دل
ہر بات پر ہے میرا یہ دشمن بنا ہوا
سینے میں چبھتا رہتا ہے مانند خار دل
کہتا ہے شعر داغ کے لہجے میں اب نبیل
ہو نہ ہو اس کا بھی ہے بہت بے قرار دل
انس نبیل
No comments:
Post a Comment