اشک آنکھوں میں آ کر سجانے لگی
تیرے غم کی ادا دل لُبھانے لگی
ہم تھے مدہوش ہم کو خبر تھی کہاں
زندگی کب غزل گُنگنانے لگی
ہم نے سوچا تھا یکسر بھُلا دیں تمہیں
دل جو تڑپا تو پھر یاد آنے لگی
جاتے جاتے یہ سُورج نے کیا کہہ دیا
آنکھ پھر رات کی جھلملانے لگی
دھڑکنوں میں بھی نغموں کے ہیں تال سُر
سانس مہکی تو جادُو جگانے لگی
چاند، تارے یہ دیپک، یہ جُگنو سبھی
رات بکھری تو بارات آنے لگی
راگ تھا مُضطرب آنکھ کا پالنا
نیند خوابوں کی ڈوری ہلانے لگی
صفیہ راگ علوی
No comments:
Post a Comment