کسی مزار پہ آ کر وہ رو نہیں سکتا
یہ کوئی اور ہے وہ شخص ہو نہیں سکتا
بیانِ رنج و الم میرا سن رہا ہے، مگر
وہ میری آنکھ کے آنسو تو رو نہیں سکتا
یہی بہت ہے اگر میرے ساتھ ساتھ چلے
وہ میرے بخت کے پتھر تو ڈھو نہیں سکتا
جو شے ملی ہی نہیں گم وہ مجھ سے کیا ہو گی
یہ طے سمجھ کہ تجھے اب میں کھو نہیں سکتا
بچھا نہ پاؤں اگر پھول میں، یقین کرو
تمہاری راہ میں کانٹے تو بو نہیں سکتا
ابھی تو ایک پہر شب کا اور باقی ہے
خیال کہہ لے غزل ہی، جو سو نہیں سکتا
پریہ درشی خیال
No comments:
Post a Comment