Friday, 21 February 2025

وصل کی شب گزر نہ جائے کہیں

 وصل کی شب گزر نہ جائے کہیں 

تیرا بیمار مر نہ جائے کہیں 

یاد میں ان کی میرے اشکوں کا 

آج پیمانہ بھر نہ جائے کہیں 

شبِ فرقت ہے اور تنہائی 

دل کی دھڑکن ٹھہر نہ جائے کہیں 

وقت میں نے بدلتے دیکھا ہے 

ڈر ہے تو بھی مکر نہ جائے کہیں 

ہو سکے گر تو قید کر لو اسے 

وقت یوں ہی گزر نہ جائے کہیں 

عالم‌ شوق میں کہیں ذیشان

تو بھی حد سے گزر نہ جائے کہیں 


ذیشان نیازی

No comments:

Post a Comment