طوفاں نظر میں ہے نہ کنارا نظر میں ہے
اک عزم معتبر کا سہارا نظر میں ہے
وہ دن گئے کہ تیرگیٔ شب کا تھا ملال
اب جلوۂ سحر کا نظارا نظر میں ہے
حسن نمود صبح کا اللہ رے کمال
بہتا ہوا وہ نور کا دھارا نظر میں ہے
کچھ ذوق پر گراں تو نہ تھا حسن کائنات
کیا کیجیے کہ حسن تمہارا نظر میں ہے
دل کو لٹے ہوئے تو زمانہ ہوا مگر
اب بھی کسی نظر کا اشارا نظر میں ہے
اف ڈبڈباتی آنکھ سے گرتا ہوا وہ اشک
اب تک وہ ڈوبتا ہوا تارا نظر میں ہے
وہ بے رخی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں
منشاء مقام کچھ تو ہمارا نظر میں ہے
منشاء الرحمٰن
No comments:
Post a Comment