Sunday, 16 February 2025

چہرے پہ کوئی رنگ ٹھہرنے نہیں دیتا

 چہرے پہ کوئی رنگ ٹھہرنے نہیں دیتا

غم مجھ کو کسی طور سنورنے نہیں دیتا

ہر لحظہ تِری یاد کا بِپھرا ہوا طوفاں

دریائے محبت کو اُترنے نہیں دیتا

اے شہرِ سلاسل! تِرا انصاف کا وعدہ

پژمُردہ اُمیدوں کو بھی مرنے نہیں دیتا

اک خوف ہے تیرا جو ڈراتا ہے ہمیشہ

یہ خوف کسی اور سے ڈرنے نہیں دیتا

رکھتا ہے مِرے خواب کو بے سمت ہمیشہ

سُورج مِری سوچوں میں اُبھرنے نہیں دیتا


 کاشف عرفان

No comments:

Post a Comment