چہرے پہ کوئی رنگ ٹھہرنے نہیں دیتا
غم مجھ کو کسی طور سنورنے نہیں دیتا
ہر لحظہ تِری یاد کا بِپھرا ہوا طوفاں
دریائے محبت کو اُترنے نہیں دیتا
اے شہرِ سلاسل! تِرا انصاف کا وعدہ
پژمُردہ اُمیدوں کو بھی مرنے نہیں دیتا
اک خوف ہے تیرا جو ڈراتا ہے ہمیشہ
یہ خوف کسی اور سے ڈرنے نہیں دیتا
رکھتا ہے مِرے خواب کو بے سمت ہمیشہ
سُورج مِری سوچوں میں اُبھرنے نہیں دیتا
کاشف عرفان
No comments:
Post a Comment