Wednesday, 19 February 2025

نظر سے سب کی پنہاں ہے جو اندازِ نظر اپنا

 نظر سے سب کی پنہاں ہے جو اندازِ نظر اپنا

کہیں مٹی میں مل جائے نہ سب کسبِ ہنر اپنا

محیطِ سوزِ عالم ہے اگر سوزِ ہنر اپنا

بقدرِ وسعتِ دل چاہیے دردِ جگر اپنا

غزل گوئی کی تہمت کیوں مِرے ذوقِ جنوں پر ہی

نہیں منت کشِ رسمِ ہنر، ذوقِ ہنر اپنا

ہر اک کا درد ہی باعث اگر ہے درد کا اپنے

کہاں تک چارہ جوئی کر سکے گا چارہ گر اپنا

پئے توسیع فن دار و رسن ہیں منتظر میرے

بہت منت کشِ توفیق دشمن ہے ہنر اپنا

قدم صدیوں کے اوپر ہیں نظر صدیوں سے آگے ہیں

نئی تعمیر میں سرمست ہے ذوقِ ہنر اپنا

یہی اک انتقام اپنا بہت کافی ہے دنیا سے

اگر غصہ میں دنیا سے چھپا رکھوں ہنر اپنا

ابھی سے چشمِ خوں آلود کو کیوں روئیے انور

ابھی تو عام ہونا ہے مذاقِ چشمِ تر اپنا


عشرت انور

No comments:

Post a Comment