وفا کے پیکروں کا جھمگٹا تھا
مگر پھر بھی جگر زخمی ہوا تھا
سرِ نوکِ سِناں اک سر سجا تھا
یہ منظر دیکھ کر دل کانپتا تھا
ہزیمت یوں اٹھانا پڑ رہی ہے
عدو کو شہر سارا جانتا تھا
میں اپنے گھر کی جب چوکھٹ پہ پہنچا
دِیا🪔اک طاق میں رکھا ہوا تھا
یہ میں بکھرا ہوا ہوں کیوں زمیں پر
مِرے ہاتھوں میں شاید آئینہ تھا
ابھی دستک سنائی دے رہی تھی
کہ دروازہ ہوا سے ہل رہا تھا
عدو کی سمت بے حد روشنی تھی
مگر تاریک اپنا راستہ تھا
اجالے یوں ہوئے ناکام منصف
شبِ ظُلمت کا دروازہ وا تھا
نوشاد منصف
No comments:
Post a Comment