Saturday, 5 April 2025

گزر رہی ہے جدائی جو تجھ پہ شاق تو دیکھ

 گزر رہی ہے جدائی جو تجھ پہ شاق تو دیکھ

کبھی کبھی تُو ورائے حد فراق تو دیکھ

مِری طلب نہ سہی، میرا اشتیاق تو دیکھ

عبارتوں سے پرے آ، ذرا سیاق تو دیکھ

جدا ہیں جسم ہمارے، جُدا ہیں رنگ و روش

تُو ان کو چھوڑ کے رُوحوں کا التصاق تو دیکھ

تُو اختلاف کی ساری حدیں بھُلا تو سہی

تُو اختلاف پہ ہم سب کا اتفاق تو دیکھ

کٹے ہے وقت، بھلے مجھ کو کاٹ کر ہی کٹے

اٹُوٹ غم ہے۔ غموں کا یہ طمطراق تو دیکھ

وہ ہے مریض جو ہر دم متین رہتا ہے

کبھی مزاح تو سُن اور کبھی مذاق تو دیکھ

 وہ میٹھے بول حقیقت میں زہرِ قاتل ہیں

تُو اس نقاب کے پیچھے چھُپا نفاق تو دیکھ

 یہ ہجر ہجر نہیں ہے کوئی قیامت ہے

یہ چشم تر نہ سہی دل کا انشقاق تو دیکھ

ہوئے ہیں حُسن کے ورثہ تمام بے گانے

ہے خالی ہاتھ یہ کاشف شکیل عاق تو دیکھ


کاشف شکیل

No comments:

Post a Comment